لکھنوکے بازار میں ایک غریب درزی کی دوکان تھی۔ جب بھی کوئی فوت ہوجاتا اور اس کی نماز جنازہ ہوتی تو یہ درزی اپنی دوکان بند کرکے نماز جنازہ میں شرکت کےلئے جاتا تھا۔ لوگوں نے اسے سمجھایا کہ بغیر جان پہچان کے ایسےہر نماز جنازہ کےلئےد وکان بند کرنے سے تمھارا نقصان ہوجائے گا۔ اس پر اس غریب درزی نے جواب دیاکہ جو آج کسی مسلمان کی نماز جنازہ میں شرکت کرے گا کل اس کی نماز جنازہ میں لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ جس پر لوگوں نے اسے بتایاکہ ہجوم صرف اولیا اللہ اور علما کرام کے جنازوں میں ہوتا ہے ۔ تم ایک معمولی سے درزی ہواور غریب آدمی ہو۔تمھارےمرنے پر
بھلاہجوم کہاں سے آئے گا۔پھر اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ 1902ء میں مولانا عبدالحئ لکھنوی صاحب کا انتقال ہوا۔ریڈیو پر بتلایا گیا، اخبارات میں جنازے کی خبر آگئی.. جنازے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا. پھر بھی بہت سے لوگ انکا جنازہ پڑھے سے محروم رہ گئے ۔ جب جنازہ گاہ میں ان کا جنازہ ختم ہوا تو اسی وقت جنازہ گاہ میں ایک دوسرا جنازہ داخل ہوا. اور اعلان ہوا کہ ایک اور عاجز مسلمان کا بھی جنازہ پڑھ کر جائیں۔یہ دوسرا جنازہ اس درزی کا تھا… مولانا کے جنازے کے سب لوگ ، بڑے بڑے اللہ والے ، علماء کرام سب نے اس درزی کا جنازہ پڑھا اور پہلے جنازے سے جو لوگ رہ گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ اس غریب کا جنازہ تو مولانا کے جنازہ سے بھی بڑھ کر نکلا