مشرقی ممالک میں عموماً دلہن شادی کے دن لال رنگ کا جوڑا زیب تن کرتی ہیں اور اِسے روایتی زیورات پہن کر مزید دلکش بنایا جاتا ہے کہ ہر دیکھنے والے کی نظر دُلہن پر ٹِک جاتی ہے۔مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مغربی ممالک میں شادی بیاہ جیسے خوشی کے موقع پر دُلہن ہمیشہ سفید رنگ کے لباس میں کیوں ملبوس ہوتی ہے؟اس کی بہت سے اہم وجوہات ہیں جن پر آج ہم روشنی ڈالیں گے اور ہمیشہ کی طرح آپ کی معلومات
میں اضافہ کریں گے۔شادی کے دن سفید جوڑے کی اس روایت کو عیسائی مذہب کا حصہ یا پھر پاکیزگی اور صفائی کی علامت تصور کیا جاتا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔تو پھر اس کی حقیقت کیا ہے؟سال 2014 میں لندن کے وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم میں ”ویڈنگ ڈرسیس” 2014- 1775 کے نام سے ایک نمائش منعقد کی گئی جس میں عروسی لباس کے اِرتقاء کی تاریخ بیان کی گئی، اس میوزیم کی کیوریٹر ‘ایڈوینا ایہرمن’ نے ابلاغِ عامہ کے نجی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سفید لباس کے متعلق پاکیزگی اور خالص پن کا نظریہ درست نہیں ہے بلکہ یہ دراصل دولت کی نمائش اور دکھاوے کی علامت ہے۔انہوں نے بتایا کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دور میں مغرب میں سفید لباس پہننا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ اُس وقت کپڑوں کو دھونے کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنے لباس کو دھونے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔لہٰذا عام لوگ رنگین لباس پہنتے تھے تاکہ گندگی اور میل زیادہ واضح نہ ہو، تاہم سفید لباس صرف انتہائی دولت مند لوگ پہنتے تھے اور اسے ایک دفعہ سے زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا تھا، آج سے دو یا تین صدیاں قبل یورپ میں سفید لباس محض شادی کے خاص موقع پر اُمراء کی دلہنیں پہنتی تھیں۔لیکن بدلتے وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ دلہن کے سفید لباس کی روایت عام لوگوں میں بھی مقبول ہوتی گئی، ایڈوینا ایہرمن کے مطابق آج کے مغرب میں یہ روایت بہت ہی مقبول ہو چکی ہے اور اکثر لوگ اسے پاکیزگی اور کنوارے پن کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں لیکن اصل میں اس کی بنیادی وجہ دولت اور نمائش ہے۔تاہم مسلمانوں اور ایشائی ممالک میں آج بھی دُلہن جب تک لال رنگ کا عروسی جوڑا نہ پہنے تو سمجھیں شادی مکمل ہی نہ ہوئی۔